کووڈ-19 سے لڑتے ہوئے نوجوان مہاجرین

کینیا میں DAFI کی طالبہ اڈھیؤ پناہ گزین کیمپوں کے لئے صابن اور چہرے کا ماسک تیار کرتی ہے۔

مہاجرین اور ان کی میزبان برادریاں COVID-19 وبائی مرض کے لیے سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ مختلف ممالک سے آئے ہوئے نوجوان مہاجرین کا ایک گروپ مایوسی کے احساس پر قابو پانا چاہتا تھا۔ انھوں نے ایک مہم شروع کی جو وبائی امراض کے خلاف لڑنے والے فعال نوجوان مہاجرین پر روشنی ڈالتی ہے۔ ان مقامی ہیروں میں سے بہت سے UNHCRکے اعلیٰ تعلمی اسکالرشپ پروگرام بنامDAFI . کے موجودہ طلبا اور فارغ التحصیل ہیں۔ ہم نے کینیا میں صورت حال کا قریب سے جائزہ لیا۔.

جنوبی سوڈانی نوجوان اڈھیؤ خود کو خوش قسمت لوگوں میں شمار کرتی ہے۔بالخصوص یہ حیرت میں مبتلا کرنے والی بات ہے، کیوں کہ اسے جاری خانہ جنگی کی وجہ سے اپنے آبائی ملک سے بھاگنا پڑا تھا، اور علاوہ ازیں اسے امتیازی سلوک اور بدنامی کے خوفناک تجربے سے جس سے لاکھوں مہاجرین گزرتے ہیں، گزرنا پڑا ہے۔ جب اڈھیو کو کچھ سال قبل زبردستی فرار ہونے پر مجبور کیا گیا تھا، تو وہ جنوبی سوڈان کے پڑوسی ملک کینیا میں پناہ گزیں کیمپ میں پھنس گئی۔ وہ کہتی ہے کہ، بہرحال جس چیز نے اسے خوس قسمت بنا دیا، وہ یہ کہ اسے DAFI کے بارے میں جانکاری معلوم ہوئی [https://rumoursaboutgermany.info/facts/dafi-programme/]. اسکالرشپ پروگرام بنیادی طور پر جرمنی کے فیڈرل فارن آفس سے مالی تعاون کے ساتھ، مہاجر پس منظر والے نوجوان طلباء کو اپنے پناہ گزیں ملک میں یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اڈھیو کو DAFI پروگرام میں داخلہ مل گیا اور وہ اپنا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کی اہل ہوگئی: وہ نیروبی کے مضافات میں جامو کینیاٹا یونیورسٹی آف ایگریکلچر اینڈ ٹکنالوجی میں کامرس کی تعلیم حاصل کر رہی ہے اور 2022 میں گریجویٹ ہونے والی ہے۔ COVID-19 وبائی مرض کے پھیلنے سے قبل، اس نے کاروباری صلاحیتیں بڑھانے کے لیے خواتین کی تربیت کی پیش کش کی اور تعلیمی میدان میں نوجوان لڑکیوں کی سرپرستی کی۔.

DAFI طالبہ اڈھیو خو د اپنے ہاتھ سے تیار کردہ چہرے کے ماسک کو دوسرے پناہ گزینوں کو دیتی ہوئی۔

> خود تیارہ کردہ چہرے کے ماسک، صابن اور وینٹیلیٹرس

عالمی صحت کے بحران سے اس کی مقامی کمیونٹی کے شدید متاثر ہونے کے بعد، اڈھیؤ نے اس کا فوری جواب دیا۔ اس نے کچھ کرنا اپنا فرض سمجھا – اس طرح اس نے اپنے محرک کو بیان کیا۔ کچھ ہی دنوں میں، DAFI کی طالبہ نے 3000 سے زیادہ چہرے کے ماسک تیار کیے جنہیں اس کے مہاجر کیمپ میں تقسیم کیا گیا۔ نوجوان رضاکار کہتی ہے۔ "اگر آپ کے پاس مدد کرنے کا کوئی طریقہ ہے تو، آپ کو فوری طور پر کرنا ہوگا، کیونکہ ایسا کرنے کے لیے کوئی صحیح وقت ہے ہی نہیں۔” پھر اڈھیو نے کسی تکنیکی سامان کے بغیر خود ہی صابن تیار کرنے کا طریقہ سیکھا اور بڑی مقدار میں اس لازمی، لیکن پناہ گزیں کیمپ میں کمیاب حفظانِ صحت مصنوعات کو تیار کرنا شروع کر دیا۔ اڈھیو نے مزید کہا کہ، "اگر اچھے دل کا کوئی شخص ہمیں زیادہ صابن تیار کرنے کے لئے کچھ بنیادی مشینری فراہم کر سکے تو، یہ نہ صرف میری بلکہ پوری برادری کی مدد ہوگی۔” اسی پر مطمئن نہیں ہوئی ، اڈھیو نے جنوبی سوڈان کے دوسرے مہاجر طلباء کو COVID-19 کے ممکنہ مریضوں کے لئے وینٹیلیٹر تیار کرنے کی ترغیب دی۔ بہت ہی بنیادی، آسانی سے حاصل کردہ مواد کی بنیاد پر، اس نے وینٹیلیٹر پروٹو ٹائپ تیار کیا جو ضروری کام انجام دیتے ہیں اور انہیں مہاجر کیمپوں اور اس کے آبائی ملک، جنوبی سوڈان بھیجا جاسکتا ہے۔

صحت کے بحران سے لڑنے والے مقامی ہیروں پر روشنی ڈالنا

UNHCR کی گلوبل یوتھ ایڈوائزری کونسل (GYAC) کے اراکین کے ساتھ ساتھ طلباء کے زیرقیادت ٹرشری رفیوجی اسٹوڈنٹ نیٹ ورک (TRSN) نے اڈھیؤ جیسی حوصلہ افزا کہانیاں جمع کرنا شروع کردی ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے تقسیم کئے جانے والے ویڈیوز، تصاویر اور اقوال پناہ گزیں نوجوانوں کی مثبت خدمات کے بارے میں شعور پھیلانے کے لئے موجود ہیں، لیکن دوسروں کو بھی کارروائی کرنے کی ترغیب دیتی ہیں (محفوظ طریقے سے اور صحت کے مشوروں کے مطابق)۔ مختصر آن لائن ویڈیوز میں نوجوان پناہ گزینوں کو صحت کی نگہداشت کرنے والے کارکنان کی مدد، دوسروں کو باخبر اور ان کی تربیت کرنے کے لئے رضاکار کی خدمات پیش، یا کمزور اور ان لوگوں کا جنہیں خطرہ لاحق ہوسکتا ہے تعاؤن کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ وہ ناظرین کو ویڈیو کو مزید شیئر کرنے، یا اپنا ویڈیو بنانے کی ترغیب دیتے ہیں۔

https://www.unhcr.org/stories.html

فالوکریں: @UNHCR_GYAC @پناہ گزیں طلبا

https://sites.google.com/view/trsn/home

DAFI سے فارغ التحصیل اور عراقی نرس موہیمن موجودہ COVID-19 بحران میں ایرانیوں اور ساتھی مہاجرین کی مدد کے لئے انتھک محنت کر رہے ہیں

نوجوان مہاجر موہیمن الختوی کو ایک اسپتال کے برآمدے میں دیکھا جاسکتا ہے جہاں وہ COVID-19 مریضوں کا علاج کرنے والے نرس کی حیثیت سے کام کرتا ہے۔ وہ باضابطہ نرس کا لباس پہنے ہوئے ہے، اور اس کے گلے میں چہرہ ماسک اور اسٹیتھوسکوپ لٹکا ہوا ہے
©UNHCR

’’میں ایک فرق پیدا کرنا چاہتا تھا۔۔۔‘‘

24 سالہ مہیمن الختوی، ایک عراقی پناہ گزیں ہے جو اسلامی جمہوریہ ایران کے سب سے جنوب مغربی صوبے، خوزستان میں واقع شہر، آبادان کے تالقانی اسپتال کے مریض وارڈ میں نرس کی حیثیت سے کام کر رہا ہے۔ مہیمن ان نرسوں کی ایک ٹیم کا حصہ ہے جنہوں نے خود کو اس کام کے لیے وقف کر دیا ہے اور وہ کچھ 50 نئے مریضوں کی جنہیں ہر ہفتے اسپتال کی قرنطینہ اکائی میں جب وہ اپنے ٹیسٹ نتائج کا انتظار کررہے ہوتے ہیں داخل کیا جاتا ہے، نگہداری کے لیے باری (روٹیشن) کی بنییاد پر انتھک محنت کر رہا ہے ۔ وہ مسلسل اپنے مریضوں کی سانس لینے اور دیگر علامات کا معائنہ کرتا رہتا ہے، اور وہ ان کے درد کو سنبھالنے کے لیے درکار ادویات کو محفوظ رکھنے کی حتی الامکان کوشش کرتا ہے۔ کچھ چالس سال قبل عراق کے جنوب-مشرقی صوبے میسان میں واقع عمارہ شہر سے اس کے والد کے بھاگ کر آنے کے بعد، اہواز، ایران، میں مہیمن کی پیدائش ہوئی۔ وہ ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد، UNHCR کی DAFI اسکالرشپ اسکیم کے ذریعہ،بنیادی طور پر جرمن حکومت کی مالی اعانت سے نرسنگ میں یونیورسٹی کی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ اس نے کہا، "مجھے یاد ہے، لوگ مجھ سے کہتے تھے کہ چونکہ میں مہاجر تھا اس لئے مجھے یونیورسٹی جانے کا خواب نہیں دیکھنا چاہئے اور اس کے بجائے آسان تجارت سیکھنے پر توجہ دینا چاہئے۔”
"لیکن میں لوگوں کی زندگیوں میں فرق پیدا کرنا چاہتا تھا۔”

https://www.unhcr.org/ph/18521-covid19-refugeenurse.html

DAFI کی تعلیم یافتہ اور روانڈا کی نرس بہاتی کینیا کی COVID-19 رسپانس کی حمایت میں اپنی طبی تربیت کے دوران نیروبی کے ایک اسپتال میں رات کی شفٹ میں کام کرتی ہوئی/mark>

اس تصویر میں روانڈا کی ایک نرس بہاتی کو کام سے تھوڑے سے وقفے کے دوران دکھایا گیا ہے جس نے نرسوں کا نیلے رنگ کا ورک ویئر اور ہیئر نیٹ پہنا ہوا ہے، اور چہرے کا ماسک اس کی گردن کے پاس جھول رہا ہے۔ وہ ایک سیلفی کے لیے مسکرا رہی ہے
©UNHCR

"میں نے نرسنگ کو منتخب کیا کیونکہ میں ضرورت کے وقت تیار رہنا اور مددگار بننا چاہتی ہوں۔”

25 سالہ بہاتی ارنسٹائن ہٹیجیکیمانا، 2014 میں DAFI اسکالرشپ کی بدولت نرسنگ کی تعلیم حاصل کررہی ہے۔ روانڈا میں پیدا ہوئی، وہ اپنے کنبے کے ساتھ 1996 میں کینیا چلی گئی، جہاں اس نے اپنی ابتدائی اور ثانوی تعلیم مکمل کی۔ جب بہاتی نہیں پڑھ رہی ہوتی ہے تو وہ بین الاقوامی معالجین برائے انسداد نیوکلیائی جنگ (International Physicians for the Prevention of Nuclear War) اور بیونڈ سائنسس انیشی ایٹو (Beyond Sciences Initiative) کو اپنی رضاکارانہ خدمات پیش کرتی ہے۔ بہاتی نے 2019 میں گریجویشن کیا تھا اور 2020 سے اسے UNHCR کینیا کے ذریعہ نیشنل یو این والنٹیئرس اسکیم میں ملازمت پر رکھ لیا گیا ہے۔ وہ نوجوانوں کو متحرک کرنے کا کام کرتی ہے۔ میڈیکل انٹرنشپ کے دوران، وہ نیروبی کے ایک اسپتال میں نرس کی حیثیت سے کام کررہی ہے۔ بہاتی ٹرشری رفیوجی اسٹوڈنٹ نیٹ ورک کی ایک سرگرم رکن ہے اور نوجوانوں کے زیر قیادت COVID-19 مواصلاتی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔

https://www.unhcr.org/ph/18491-apr2020-enews-covid19refugees.html/bahati

DAFI سے فارغ التحصیل، کنگولی ڈاکٹر جوناس COVID-19 کی علامات میں مبتلا مریضوں کی مدد کرنے کے لئے روانڈا کے ایک اسپتال میں کام کر رہا ہے

۔“ڈاکٹر جونا” جلد سے جلد COVID-19 مریضوں کی شناخت کرنے والے ڈاکٹر کے طور پر کام کر رہا ہے ©UNHCR

’’میں ایک بڑے، غیر تعلیم یافتہ گھرانے سے آیا ہوں۔ خاندانوں اور معاشروں کے لئے تعلیم کیا کر سکتی ہے یہ دیکھنا میری سب سے بڑی مہم ہے۔

29 سالہ "ڈاکٹر جوناس”، کیزیبہ (Kiziba) میں اسے ایسے ہی جانا جاتا ہے جو روانڈا کا سب سے قدیم موجودہ کیمپ ہے، یہ کیو جھیل (Lake Kivu) کے نظارے پر واقع ایک پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے، جہاں 1996 کے بعد سے 17،000 پناہ گزین لمبو میں رہ رہے ہیں۔ اصل میں اس کیمپ کو پڑوسی ملک عوامی جمہوریہ کانگو (ڈی آر سی) میں جاری جنگ سے بھاگ کر آنے والے ہزاروں پناہ گزینوں کی مدد کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ 2012 سے ایک DAFI طالب علم، جوناس کو 800 درخواست دہندگان میں سے منتخب کیا گیا تھا اور اس نے خود سے وابستہ اعلیٰ توقعات کو درست ثابت کیا؛ اس نے 2018 میں گریجویشن کیا اور میڈیکل ڈاکٹر کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا۔ وہ نہ صرف کیزیبہ بلکہ پورے روانڈا میں میڈیسین میں پہلا رفیوجی گریجویٹ ہے۔ اس وقت، وہ روانڈا کے بائومبا ڈسٹرکٹ ہسپتال میں کام کر رہا ہے، جس قدر شدید ممکن ہوسکتا ہے COVID-19 وبائی مرض سے لڑ رہا ہے۔ جوناس نے کہا کہ "ہم COVID کے ممکنہ مشتبہ افراد کی تشخیص کرتے ہیں، اور اگر اس کی تصدیق ہوجاتی ہے تو، ان مریضوں کو خصوصی طبی اکائیوں میں مزید علاج کے لیے تیار کرتے ہیں۔”

آخری بار اپڈیٹ کیا گیا: 2020-08-28 شائع کیا گیا: 2020-06-16