جرمنی اردن، لبنان اور ترکی میں موجود تارکین وطن کی حمایت کرتا ہے
زندگی میں صرف کھانا اور جائے پناہ ہی اہم نہيں ہیں۔ اس میں فخر، وقار، آرٹ، ثقافت اور زبان کی بھی اہمیت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ German Goethe-Institut اور اس کے شرکاء نے اردن، لبنان، ترکی اور عراق میں ثقافتی اور تعلیمی منصوبے شروع کئے ہیں۔
Turkey
ترکی تین ملین شامی تارکین وطن کی میزبانی کر رہا ہے۔ جرمنی حکومت کے جواب کے ایک حصے کے طور پر، Goethe-Institut اور/یا اس کے شُرکاء تارکین وطن کے کیمپوں میں اور آس پاس کے بچوں اور نوعمروں کی مدد کرکے اس صورتحال کو نمٹا رہے ہیں۔
جنوب-مشرقی ترکی اور عظیم استنبول میں "فلائنگ لائبریز” علم، معلومات اور ثقافت تک رسائی فراہم کرکے، شامی اور ترکی کے بچوں کے لئے جائے ملاقات بن چکی ہیں۔ آرٹس اور دیگر ثقافتی منصوبے امید کی ایک کرن ہیں جو کیمپوں میں موجود بچوں اور نوعمروں کو تقویت فراہم کرسکتے ہیں۔ مستقل سرگرمیاں، کورسیز اور ورکشاپس مثلا ریڈنگ سرکلس، ٹیبلٹ/کمپیوٹر اور لسانی کلاسیز، فلمی نمائش، سماجی گروپس، اور مختلف موضوعات سے متعلق تربیتی کورسیز جیسے قصہ گوئی، تخلیقی فن، تھیٹر اور مزید امور کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ متعدد منصوبوں میں، Goethe-Institut اور اس کے شرکاء نے اقدامات کے سلسلے میں صدمے کے ماہرین سے رجوع کیا ہے اور مقامی شرکاء اور تنظیموں کے ساتھ تعاون کیا ہے جو زمینی سطح پر امداد کو منظم کرتے ہیں۔
آرٹ کا ایک منصوبہ، مثال کے طور پر، موسوم "مجھے اپنی کہانی سنائیں” اور جس میں انداز بیان، ادبی، سمعی اور بصری عناصر شامل ہیں۔ قصہ گوئی ہنر، فوٹو گرافی اور انٹرویوز کے ذریعہ، شامی نوجوان تارکین وطن نے شام سے فرار ہونے سے قبل، دوران اور بعد میں اپنے وقت کی کہانیاں سنائیں۔ یہ کہانیاں بسا اوقات ایک غیرمعقول حقیقت، ایک نازک معمول کی زندگی اور عام بربریت کے درمیان زندگی کا ثبوت پیش کرتی ہیں۔ کہانیاں اور شہادتیں Goethe-Institut Turkey کی ویب سائٹ پر مستقل طور پر پیش کی گئیں ہیں۔
اردن اور لبنان
000 باشندوں پر مشتمل، اردن کا زاتاری کیمپ جو کہ دنیا کے بڑے تارکین وطن کیمپوں میں سے ایک ہے۔ یہاں، Goethe-Institut اور اس کے مقامی شرکاء ہیں،
جنہوں نے اب منصوبے کو اپنی زیرنگرانی لے لیا ہے، جو مہاجرین کی مدد کرتے ہیں اور واقعات جیسے ریڈنگس، ورکشاپس اور بچوں کی دیگر سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ امدادی کارکنوں کے لئے تربیتی مواقع کا اہتمام کرتے ہیں۔ تاہم، زاتاری ہزاروں کیمپوں میں سے صرف ایک مثال ہے۔
لوگوں کو کسی نئی چیز کے بارے میں سوچنے اور تخلیقی توجہ کی ضرورت کے لئے آرٹ ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس طرح سے، تخلیقی صلاحیتوں کو پھر سے متحرک کرنے اور نئے نقطۂ نظر کو فروغ دینے میں مدد مل سکتی ہے۔ موسیقی بجانا، ڈرائنگ کرنا، یا ڈانس کرنا آپ کے روز مرہ کے سوچ کے چکر کو توڑنے اور صدمے کی بے حسی کو دور کرنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ لہذا، مہاجرین کے کیمپ میں قیام کو زیادہ قابل برداشت بنانے کے لئے یہ سرگرمیاں ضروری ہیں۔
عراق
گذشتہ برسوں کے دوران، شام کے مہاجرین اور داخلی طور پر بے گھر ہونے والے عراقیوں کے لئے آرٹ اور ثقافتی منصوبے بھی شمالی عراق کے مہاجر کیمپوں میں منعقد کیے گئے ہیں۔ ورکشاپس، فن کے منصوبوں اور مختلف قسم کے موضوعات کا احاطہ کرنے والے کورس – مثال کے طور پر انگریزی، کمپیوٹرس، فوٹوگرافی، ڈرائنگ، ریڈنگ، گروہی گانا، ویڈیوز – لوگوں کو روزمرہ زندگی کے مواقع فراہم کرتے ہیں اور سماجی ربط و ضبط کو مضبوط کرتے ہیں۔ نوجوان تارکین وطن اربیل کے بچوں سے بھی رابطہ کرتے ہیں، جو آس پاس کی میزبان جماعتوں کے ساتھ تبادلہ کو فروغ دیتا ہے۔